Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر1

آج کالج میں منال کا پہلا دن تھا۔وہ بہت نروس ہو رہی تھی۔کسی کو جانتی بھی نہی تھی یہاں۔۔وہ شروع سے ہی کہی بھی اکیلے جانے سے گھبراتی تھی۔اس کی دوست حرا کو یہاں ایڈمشن ملا نہی ورنہ دونوں کا ساتھ کالج جانے کا ارادہ تھا۔۔
اب اکیلے کالج جانا منال کے لیے کسی مشن سے کم نہی تھا۔جو بھی ہو اسے پڑھنا تو تھا ہی سوچا آہستہ آہستہ دوست بنا لے گی اپنی کلاس فیلوز کو لیکن یہاں تو سین ہی کچھ اور تھا۔یہاں دوستی کرنا تو دور کی بات کسی نے اس کی طرف مڑ کر بھی نہی دیکھا تھا۔۔
خیر منال نے خود ہی اپنا کلاس روم ڈھونڈ لیا۔اور کلاس میں جا کر بیٹھ گئی۔۔سب سٹوڈنٹس خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔جن کے فرینڈز ان کے ساتھ تھے۔وہ سٹوڈنٹس تو بہت خوش تھے۔لیکن جو اکیلے تھے وہ منال کی طرح چپ چاپ بیٹھے تھے۔۔
سر کلاس میں آئے اور کلاس سے اپنا تعارف کروایا۔اور باری باری سب سٹوڈنس نے اپنا تعارف کروایا۔منال نے بھی اپنی باری پر اپنا تعارف کروایا۔اور پھر سر نے اٹینڈنس لگائی۔اور لیکچر سٹارٹ کر دیا۔
پورا دن اسی طرح گزر گیا۔۔ایک کے بعد ایک لیکچر۔۔۔منال بور ہو چکی تھی۔۔۔اسے ایک ہی دن میں اندازہ ہو رہا تھا کہ کالج کی لائف سکول لائف سے بہت مختلف ہے۔۔۔آخر کار لنچ بریک ہوئی تو وہ کلاس سے باہر نکل کر گارڈن میں جا کر بیٹھ گئی۔۔
کچھ کھانے کو دل ہی نہی کر رہا تھا اس کا۔۔اسی لیے وہ چپ چاپ بیٹھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگ پڑی۔۔ہر کوئی گروپس میں بیٹھا تھا۔۔بس ایک وہی تھی جو سب سے الگ بیٹھی تھی۔۔
تب ہی سامنے سے منال کو ایک لڑکا آتے دکھائی دیا۔جس کے ساتھ دو گارڈز تھے۔۔وہ کسی بھی اینگل سے منال کو سٹوڈنٹ نہی لگا۔۔سب سٹوڈنس اس کی طرف دیکھ کر چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔۔
لیکن وہ بنا کسی کی پرواہ کیے آنکھوں پر سن گلاسز لگائے۔۔پینٹ شرٹ میں ملبوس شان سے چلتا ہوا منال کے پاس آ رکا۔۔۔منال حیدر۔۔۔؟؟ ایک گارڈ نے منال کا نام لیا تو منال اپنا بیگ اٹھائے۔ڈرتے ڈرتے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
جی۔۔۔میں ہی ہوں منال حیدر۔۔۔۔منال نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔۔وہ حیران تھی کہ ان کو میرا نام کیسے پتہ ہے۔۔۔اس کے دماغ میں ہزاروں سوالات تھے۔۔لیکن وہ کچھ بول نہی سکی۔۔
وہ لڑکا فون پر مصروف تھا۔۔آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گا منال حیدر۔۔۔گارڈ بولا۔۔
منال کے تو حوش اڑ گئے۔۔اس کی بات سن کر۔۔اس نے جلدی سے خود کو کمپوز کیا۔۔کیوں جاو میں آپ کے ساتھ میں آپ کو نہی جانتی۔۔۔وہ جلدی سے بولی۔۔
تب ہی وہ لڑکا فون گارڈ کو پکڑاتے ہوئے منال کی طرف بڑھا۔۔اور اسے بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے ساتھ لے کر چل پڑا۔۔اور اس کے گارڈز بھی اس کے ساتھ چل پڑے۔۔۔
منال سمجھ ہی نہی پائی یہ سب کیا ہوا وہ پہلے ہی ڈری ہوئی تھی آج کالج کا پہلا دن تھا۔۔اور اوپر سے یہ سب کچھ وہ تو ان کو جانتی تک نہی تھی۔۔پھر یہ کیوں اسے اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے۔۔
منال نے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس لڑکے کی گرفت بہت مظبوط تھی۔۔۔وہ چھوٹی سی لڑکی اس شخص کا مقابلہ نہی کر سکتی تھی۔۔منال نے سب کی طرف التجائی نظروں سے دیکھا۔۔
لیکن کسی نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ نہی چھڑوایا اس شخص سے۔۔۔منال کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔وہ اس شخص کے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی۔۔اس کے ذہن میں بہت سے خیالات آ رہے تھے۔۔
بابا آنے والے ہو گے مجھے لینے چھٹی کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔اگر ان کو میں نہ ملی تو وہ پریشان ہو جائیں گے۔۔ماما کا کیا بنے گا۔۔۔اس کے ذہن میں بہت سے خیالات تھے۔۔
گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ لڑکا گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔اور اپنے ساتھ منال کو بھی گاڑی میں بٹھا لیا۔۔منال گرتی پڑتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔اور گارڈ نے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔تو دوسرے گارڈ نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔
آپ کون ہیں۔۔۔؟؟ کیوں کر رہے ہیں یہ سب پلیز مجھے گھر جانے دیں۔۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔۔بلکہ مجھے کالج چھوڑ دیں۔۔میرے بابا آنے والے ہو گے۔۔وہ مجھے گھر لے جائیں گے۔۔۔اگر ان کو میں کالج میں نا ملی تو وہ پریشان ہو جائیں گے۔۔۔
منال روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔لیکن اس شخص پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہی ہوا۔۔وہ گردن  جھکائے ایسے فون پر مصروف تھا جیسے اسے کسی بات سے کوئی فرق ہی نہی پڑ رہا ہو۔۔
منال کو بہت دکھ ہوا اس کی بے رخی پر اور اپنی بے بسی پر۔۔۔وہ جب بول بول کر تھک گئی تو چپ ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔وہ راستے کو پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔لیکن اسے کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا۔۔
وہ کبھی اکیلی باہر آئی ہی نہی تھی۔۔۔کبھی بھائی کے ساتھ تو کبھی بھائی کے ساتھ۔۔یا پھر ماما کے ساتھ ہی باہر آتی جاتی تھی۔۔اکیلی تو وہ کبھی گلی تک نہی گئی تھی۔۔گاڑی انجان راستوں پر چلتی جا رہی تھی۔۔۔
منال کے بابا چھٹی سے زرا دس منٹ پہلے ہی آ گئے۔۔چھٹی ہو گئی تھی۔۔۔سب سٹوڈنٹس باہر آ چکے تھے۔۔لیکن ان کو منال کہی نظر نہی آئی۔۔۔جب کافی دیر تک منال باہر نہ آئی تو وہ اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
پرنسپل کے آفس میں گئے اور ان سے منال سے متعلق پوچھا۔۔۔تو انہوں نے منال کی کلاس وغیرہ کا پوچھا اور گارڈ کو اس کی کلاس میں دیکھنے کو کہا۔۔۔
کچھ دیر بعد گارڈ واپس آیا۔۔۔سر جی ساری کلاسیں خالی ہیں۔۔اور سارے سٹوڈنٹس جا چکے ہیں۔۔۔کیا۔۔؟؟ لیکن منال تو باہر آئی ہی نہی۔میں تو چھٹی سے دس منٹ پہلے سے باہر کھڑا ہوں۔۔
ان کی بات سن کر پرنسپل کے بھی ہوش اڑ گئے۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ہمارے کالج سے چھٹی کے بعد ہی سٹوڈنٹس کو باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔۔پھر وہ کہاں جا سکتی ہے۔۔۔آپ فون کر کے دیکھیں اگر آپ کی بیٹی کے پاس فون ہے تو۔۔۔
جی فون تو ہے اس کے پاس۔۔۔منال کے بابا نے جلدی سے اپنا فون نکال کر منال کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔بیل جا رہی تھی لیکن منال فون نہی اٹھا رہی تھی۔۔ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔۔
منال کے فون کی بیل بجی تو اس نے جلدی سے اپنے بیگ سے فون نکالا۔۔بابا اس کے منہ سے نکلا۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کال پک کرتی۔۔۔اس کے ہاتھ سے فون کھینچ لیا اس شخص نے۔۔
منال نے بے بسی سے اس شخص کی طرف دیکھا۔۔لیکن اس کے دل میں کوئی رحم نہی آیا۔اس نے منال کے ہاتھ سے فون کھینچ کر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔۔منال کے ہوش اڑ گئے۔۔۔یہ فون بابا نے بہت مشکلوں سے کل ہی لا کر دیا تھا۔۔
یہ کیا کر دیا آپ نے میرے بابا نے یہ فون مجھے کل ہی لے کر دیا تھا۔۔ایک ایک پیسہ جوڑ کر اور آپ نے ایک ہی پل میں بنا سوچے سمجھے گاڑی سے باہر پھینک دیا۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔
لیکن اس کی باتوں کا اس پتھر دل انسان پر کوئی اثر نہی پڑا۔۔۔اس کا دھیان فون میں تھا۔۔منال کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔یہ سوچ سوچ کر کے بابا کتنے پریشان ہو رہے ہو گے۔۔۔اب تو فون بھی ٹوٹ گیا۔۔۔
منال کے بابا کا پریشانی سے برا حال ہو رہا تھا۔۔اب تو منال کا نمبر بند آ رہا تھا۔۔۔انہوں نے پرنسپل کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہو گئے۔۔۔انہوں نے سارے گارڈز کو وہاں بلایا۔۔
کیا کسی نے ایک لڑکی کو اکیلے جاتے ہوئے نہی دیکھا چھٹی سے پہلے۔۔۔اگر لڑکی کالج سے باہر نہی گئی۔۔۔تو گئی کہاں۔۔۔؟؟ وہ گارڈز پر سیخ پا ہو رہے تھے۔۔۔
سر جی وہ ایک لڑکا آیا تھا۔گاڑی میں اس کے ساتھ دو گارڈز تھے۔وہی لے کر گیا ہے اس لڑکی کو۔۔۔گارڈ سر جھکاتے ہوئے بولا۔۔۔
کیا کہا تم نے۔۔۔۔؟؟؟ اور تم مجھے اب بتا رہے ہو۔۔۔؟؟وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔کون تھا وہ۔۔۔کوئی جانتا نہی اسے کیا وہ یہاں کا سٹوڈنٹ تھا۔۔وہ غصے سے آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
سر جی میں دو تین بار آیا تھا آپ کو بتانے لیکن آپ کے پاس مہمان بیٹھے تھے اسی لیے میں نے بتانا ضروری نہی سمجھا۔۔۔اسی لیے میں واپس چلا گیا۔۔۔گارڈ سر جھکاتے ہوئے بولا۔۔۔وہ یہاں کا سٹونٹ نہی تھا۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو تم نے مجھے بتانا ضروری نہی سمجھا۔۔۔تم لوگ کہاں تھے سو رہے تھے۔۔جب وہ لڑکی کو لے کر جا رہا تھا۔۔تم لوگوں کو کس لیے رکھا ہے یہاں۔۔۔۔
سر جی ہمیں ڈر تھا کہ کہی وہ لڑکی کو کچھ کر نہ دیں۔۔۔ان کے پاس پسٹل تھی۔۔اور لڑکی ان کے قبضے میں تھی۔اسی لیے ہم نے کوئی قدم نہی اٹھایا۔۔۔ہمیں تو وہ یہ کہ کر اندر داخل ہوئے تھے۔۔کہ وہ یہاں پڑھتے ہیں۔۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم پولیس کو انوالو کر لیں اس معاملے میں۔۔پرنسپل منال کے بابا سے بولے۔۔نہی پولیس کو نہی بلانا۔۔۔میں جانتا ہوں وہ کون لوگ تھے۔۔۔وہ پریشان سی آواز میں بولے۔۔۔
تو کیا آپ کی دشمنی تھی کسی سے۔۔۔پرنسپل کچھ سوچتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔نہی دشمنی نہی دشمنی سے بھی زیادہ کچھ بڑھ کر ہے۔۔میں چلتا ہوں گھر والے پریشان ہو رہے ہو گے۔۔کہتے ہوئے وہ وہاں سے چل پڑے۔۔۔

   1
0 Comments